وصالِ مصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم Wisal-e-Mustafa

وصالِ مصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم

حمد ِ باری تعالیٰ:

وصالِ مصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم Wisal-e-Mustafa
وصالِ مصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم Wisal-e-Mustafa

    تمام تعریفیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے حقیقی عقلمندوں کوچن لیاکہ قربت سے غفلت کوچھوڑکراس کی معرفت کے چھپے ہوئے مطالب کوتلاش کریں۔اوراس نے پختہ سمجھ کی کشتیوں کو،اپنی ہمیشہ رہنے والی صفت کے متعلق سوال کے دریاؤں کی تیزلہروں میں غرق کردیا۔اور غوروفکرکے پرندوں کے پروں کوکنوئیں سے آزادکرکے اپنی شانِ بے نیازی کے میدانوں میں پہنچا دیا۔ اورحواس وشعورکے پیمانوں کی بنیادنااُمیدی کے کدَّال سے گرادی، لہٰذااس کی صفات وقدرت کااندازہ لگانے کاکوئی پیمانہ نہیں۔ اورعقل ودانش کے پرندوں کو اپنی ذات کی معرفت کے جال میں داخل کیا تو افلاک و املاک سبھی اس کی شانِ اَحَدِیَّت کے ادراک سے عاجز آگئے اورعقلیں اس کے رازِ یکتائی کے حصول کے قریب پہنچنے سے عاجزآگئیں۔پس وہ اوّل ہے جس کی اَوَّلِیَّت پر سبقت لے جانے والاکوئی نہیں۔وہ آخِر ہے جس کے آخری ہونے پرکوئی آخرنہیں ۔وہ ظاہرہے کہ اپنے اہلِ محبت پر دلیل کے ساتھ عیاں ہے۔وہ باطن ہے کہ غوروفکرکے باوجود دل اس کاتصور نہیں کر سکتا۔وہ ایسا سمیع (یعنی سننے والا)ہے کہ رحمِ مادرکے پردوں کی تاریکی میں بچہ کے سانس کی آوازبھی سن لیتا ہے۔وہ ایسابصیر(یعنی دیکھنے والا)ہے کہ رات کے اندھیرے میں چھپی ہوئی سیاہ چٹان پرچیونٹی کے رینگنے کانشان بھی دیکھ لیتاہے۔وہ علیم ہے کہ ہروہ بات جانتاہے جسے بندہ اپنے دل میں چھپاتا ہے ۔ وہ جَبَّار ہے کہ ہرجابر اس کی بلندہیبت کے سامنے جھکا ہوا ہے۔وہ قَہَّار ہے کہ ہرمتکبرپراپنی شانِ اقتدارسے غالب ہے ۔ ساری کائنات اس کی تسبیح بیان کررہی ہے اورتمام مخلوق اس کی بزرگی کی معترف ہے۔اورگرج اسے سراہتی ہوئی اس کی پاکی بولتی ہے اورفرشتے اس کے ڈرسے (یعنی اس کی ہیبت وجلال سے) اس کی تسبیح کرتے ہیں۔
    اے اعلیٰ مقصد کے طلب گار! راستے میں بہت زیادہ ہلاکتیں اور دُشوار گُزارگھاٹیاں ہیں۔اگر تو نے یہاں توفیقِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کوپالیا تواپنی ملاقات میں کامیاب ہوجائے گا،اپنی اُمید کی انتہاء کو پالے گا،پھر تو ایسے جمال کو دیکھے گا جوکبھی تیرے خیال میں نہ آیاتھااور ایسے جواب سنے گا جو کبھی تیرے دل میں نہ کھٹکے ہوں گے،اورتو ایساجام پئے گا جو تجھے سیراب کر دے گااور اہل ومال سے بے پرواہ کر دے گا۔اگر تواپنی عقل ورائے اورمثال سے اس کی بارگاہ میں رسائی چاہے گا تو ملاقات تو کجااپنی دیگر نعمتوں سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے گااورخسارہ وعذاب مول لے گا۔اپنے تجسُّس اورسوال میں کمی کراورچھان بین ا ورجھگڑے سے رک جا۔ اور جان لے کہ( جس طرح تومقصودچاہتاہے )اللہ عزوجل کی مشیَّت اس کے برعکس ہے۔
    ذاتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی معرفت کے میدانوں کی طرف کتنے ہی عقلوں کے قافلے چلے اور بھٹکتے رہے،لیکن منزل پر نہ پہنچ
سکے ۔ بہت سی عقلوں نے اس دروازے میں داخل ہونا چاہا مگروہ ہمیشہ بند رہا۔عقل نے کتنے ہی پیغام بھیجے مگر وہ حیرانی کے عالم میں واپس لوٹ آئے ۔ عقل بغیربدلے اس درپرکھڑی ہے،فکر اس بارگاہ میں ہمیشہ سے حاضرہے،پختہ سمجھ اس کی شانِ بے نیازی کے ادراک میں حیران وششدرہے کہ حواس باختہ ہوچکی ہے۔عقلیں دنگ ہیں کہ معقول کے ذریعے اس کی پہچان نہیں ہوتی اور اذہان ہکاّبکاّ ہیں کہ منقول کے ذریعے اس کاادراک نہیں ہوتا۔
    پاک ہے جومعبودہے ،کیسا؟کیسے ہو کہ وہ کیفیت سے پاک ہے۔کہاں؟کہاں ہوکہ وہ کسی جگہ میں ہونے سے پاک ہے۔ وہ ہر شئے سے اوّل ہے اور اس کے لئے ابتداء نہیں، وہ ہر شئے کا آخر ہے اوراس کے لئے انتہاء نہیں۔ اس کو کسی مثل پر قیاس کیا جاسکتاہے نہ کسی مادی شئے کے ساتھ اسے متصف کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی کسی جسم کے ساتھ اس کی پہچان ہو سکتی ہے۔اس نے شر کو پیدا کیا اوراسے لکھ دیا،اس نے خیر کو پیدا کیاا وراسے پسند فرمایا۔جس نے اس کی اطاعت کی اس پر رحم فرماتاہے اورجس نے نافرمانی کی اسے عذاب دیتاہے ،کسی فیصلے کے بارے میں پوچھنے کامحتاج نہیں۔ اپنے اولیاء سے چھپتا نہیں اور نہ ہی انہیں حجاب میں رکھتا ہے ۔ اس کایہ ازلی وعدہ ہے کہ یٰۤاَ یَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃ ﴿۲۷﴾٭ۖارْجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾ ترجمۂ  کنزالایمان:اے اطمینان والی جان! اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔''(پ۳0، الفجر: ۲۷۔۲۸)
    پاک ہے ملک وملکوت والا، عزت وعظمت والا ،وہ زندہ ہے جسے موت نہیں۔وہ پوشیدہ رازوں،دلوں کی دھڑکنوں اور چھپے ہوئے خیالوں کی آہٹوں کو بھی جانتا ہے۔ اس نے عقلوں کو اپنی معرفت کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے اس سمندر میں غرق کردیا جس کی کوئی ابتداء ہے نہ انتہاء ۔وہ سوچوں کوپیغام دینے والاہے، اس کی معرفت کی راہ میں سوچ رک گئی اورحیران ہے مگروہ ہمیشہ سے باقی ہے۔احساس کا جاسوس آیا تاکہ اس کی بعض صفات کو جانے لے تو تقدیر نے اسے آوازدی کہ اے حیرت زدہ !توکہاں چل دیا، دروازے اورراستہ توبند ہیں۔اس کے ادراک کی طرف کوئی راہ نہیں۔ نہ ہی اس کی کوئی شبیہ و مثل ہے۔ ایساسمندرہے کہ وہاں سے ''جوہر''نکالناکسی ''غوطہ خور''کے لئے ممکن نہیں۔ایسی رات ہے کہ بہت چمکنے والاستارہ بھی اس میں آنکھ کے لئے روشنی نہیں کرسکتا۔
    پاک ہے وہ ذات جس نے تمام موجودات کو بنایا،زمانے کی تدبیر فرمائی، انسان کوپیداکیااورپھر اسے بولناسکھایا،قرآن کریم اتارا، ایمان وکفراور اطاعت ونافرمانی کو مقدر کیا،وہ بھول سے پاک ہے ،اسے ایک کام دوسرے سے غافل نہیں کرتا ، زمانے اسے نہیں بدل سکتے ،امور کابدلنا اس پر مختلف نہیں ہوتا۔اختیار کو مقرر فرمانے والا ہے اور قیامت کے دن کا مالک ہے ۔اس کی شان سب سے بلندہے ،اور اسی کے لئے ہیں سب اچھے نام اور بلند صفات۔اوروہ فرماتاہے: ''خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا ترجمۂ  کنزالایمان: آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بنائے۔(پ۱۹،الفرقان :۵۹)'' اور ''اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ
اسْتَوٰی ﴿۵﴾ ترجمۂ  کنزالایمان:وہ بڑی مہر والا اس نے عرش پر استواء فرمایاجیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔''(پ۱۶،طٰہٰ :۵) زمانے اسے پرانانہیں کرسکتے ،مقداراسے روک نہیں سکتی ،اطرافِ عالم اُسے گھیرنہیں سکتے اور نگاہیں اُس کااحاطہ نہیں کرسکتیں۔ اوراس کافرمان ذیشان ہے: ''یُکَوِّرُالَّیْلَ عَلَی النَّھَارِ ترجمۂ کنزالایمان : رات کو دن پر لپیٹتاہے ۔(پ۲۳،الزمر :۵)''اور وَکُلُّ شَیۡءٍ عِنۡدَہٗ بِمِقْدَارٍ﴿۸﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے۔ (پ۱۳،الرعد:۸)''اس کی ذات دیگرذوات کی طرح نہیں اور اس کی صفات دیگرصفات کی مثل نہیں۔وہ درجات بلند کرنے والا ، زندوں کومارنے والااورمردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ بولیاں اس پر مشتبہ نہیں ہوتیں اور نہ ہی آوازیں اس پر مختلف ہوتی ہیں۔ حواس کے ترازو سے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اسے نیند آئے نہ اُونگھ۔اولیاء اس کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے ہیں۔ملائکہ اس کے خوف سے اس کے ذکر سے غافل نہیں ہوتے۔جن وانس اس کے قبضہ واقتدار میں ہیں۔جنت وجہنم اس کے'' امر ونہی'' کے تحت ہیں۔بیان کرنے والے (جیسااس کاحق ہے) اس کی تعریف وتوصیف نہیں کرسکتے ۔ گمان اسے قید نہیں کرسکتے ۔اس پرکسی کا احسان نہیں۔آنکھیں اسے کُھلَم کُھلا نہیں دیکھ سکتیں۔وہ جب کسی شئے کوچاہے تواس سے فرمائے :''ہوجا۔''تووہ فوراًہوجاتی ہے ۔ مخلوق اس کے غالب ارادہ میں مقیدہے۔ اُسی نے مخلوق اور ان کے اعمال کوپیدافرمایااوروہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں اوروہ ارشاد فرماتاہے: لَایُسْـَٔلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْـَٔلُوۡنَ ﴿۲۳﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اس سے نہیں پوچھا جاتا جو وہ کرے اور ان سب سے سوال ہو گا۔''(۱)(پ۱۷، الانبیآء:۲۳)
    پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی معرفت تک جانے والی حقائق کی راہوں کو کٹھن و دشوار بنا دیاپس اس پر چلنے والے چٹیل میدان میں اگئے ۔ اس نے مخلوق کے ادراک کوحیران کر دیاتواب وہ حیرت زدہ ہیں۔انہوں نے عقلوں کے تیل سے معرفت کے چراغ جلائے اورایمان کی بجلی کے نورسے رہنمائی حاصل کی ۔فرمان باری تعالیٰ ہے: ''کُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَہُمۡ مَّشَوْا فِیۡہِ ٭ۙ ترجمۂ کنزالایمان:جب کچھ چمک ہوئی اس میں چلنے لگے۔''(پ۱، البقرۃ:۲0)
    پھرانہوں نے اپنے دلوں کی طرف رجوع کیاتودل کہنے لگے: ''ہم پاکیزگی کے گھر ہیں اور گھر والا بہتر جانتاہے کہ گھر میں کیا ہے۔''پھرانہوں نے صفات کادامن تھاماتو وہ بولیں:''ہمیں اس کے اظہارکی طاقت نہیں ۔''اس کے بعدانہوں نے عقل کی طرف اشارہ کیاتو عقل نے مدہوشی وحیرت کے عالم میں ان سے کہا:''میں بھی اس معاملہ میں تمہاری طرح حیران ہوں ، میں
اس کااحاطہ نہیں کرسکتی کہ اسے بیان کروں۔میں اس کی صفات بیان نہیں کرسکتی کہ اس کی تعریف وتوصیف کروں اورمیں نہیں جانتی کہ کس طرف سے اس تک رسائی حاصل کروں۔ تم نے اس امر کے متعلق پوچھا ہے جسے میں نہیں جانتی اور تم اس راز کااظہار چاہتے ہوجسے حاصل کرنے میں ، مَیں خودہمیشہ عاجزرہی ۔مجھے تویہاں سے صرف حیرت وتعجب ہی حاصل ہواہے۔لیکن اے معرفتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں حیرت زدہ !اے اس کے معانی کے حسن میں عقل کولُٹادینے والے !اگرتُو اس کی معرفت چاہتا ہے توتوفیقِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی راہ پر چل۔کیونکہ وہ ایساقریب ہے کہ تُو جب چاہے اس کی بارگاہ میں حاضرہوجائے اوروہ بعید ہے مگرفاصلے کے ساتھ نہیں کہ تواسے طے کرلے۔اگر تو اس سے خالص دوستی اور تعلق رکھے گا تو وہ تجھے پاکیزگی وپسندیدگی کے جام سے سیراب فرمائے گا اور اگر تونے اس کی محبت کاجام پی لیاتویہی جام تجھے سیراب کردے گا اور اگر تو اس کے ذکر اور حمدوثنا کے نغمے سننا چاہتا ہے تواسے کسی بھی چیز سے تشبیہ دینے سے بچتے ہوئے توحیدوپاکی بیان کرنے والی زبان سے کہہ :

تَبَارَکَ اللہُ فِیْ عُلْیَاءِ عِزَّتِہٖ وَجَلَّ مَعْنَی فَلَیْسَ الْوَھْمُ یَحْوِیْہٖ
وُجُوْدُہٗ سَابِقٌ لَاشَیْءٌ یُشْبِھُہ، وَلَاشَرِیْکَ لَہٗ لَاشَکَّ لِیْ فِیْہٖ
لَاکَوْنٌ یَحْصُرُہ، لَاعَوْنٌ یَنْصُرُہ، لاَکَشْفُ یُظْھِرُہ، لَاجَھْرٌیُبْدِیْہٖ
لَادَھْرٌیَخْلُقُہ، لَانَقْصٌ یُلْحِقُہ، لَانَقْلٌ یَسْبِقُہ، لَاعَقْلٌ یَدْرِیْہٖ
حَارَتْ جَمِیْعُ الْوَرَی فِیْ کُنْہِ قُدْرَتِہٖ وَلَیْسَ تُدْرِکُ مَعْنَی مِنْ مَعَانِیْہٖ
سُبْحَانُہ، وَتَعَالٰی فِیْ جَلَالَتِہٖ وَجَلَّ لُطْفًاوَعَزَّفِیْ تَعَالِیْہٖ

    ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنی عُلُو عزت کے اعتبارسے بلندوبرترہے اوروہ بڑاہے کہ وہم اس کااحاطہ نہیں کرسکتا۔(۲)۔۔۔۔۔۔اس کاوجودہمیشہ سے ہے ،کوئی شئے اس کے مشابہ نہیں اوراس کاکوئی شریک نہیں اورمجھے اس میں کوئی شک نہیں۔(۳)۔۔۔۔۔۔کوئی جگہ نہیں جواسے گھیرلے،کوئی مددگارنہیں جواس کی مددکر ے،کوئی کشف نہیں جواسے ظاہرکرے اورکوئی اعلان نہیں جواسے بیان کرے۔(۴)۔۔۔۔۔۔کوئی زمانہ نہیں جس نے اسے پیداکیا،کوئی عیب نہیں جواس سے مل جائے،کوئی ایسی ذات نہیں جواس سے بڑھ جائے اورکوئی عقل نہیں جواس کاادراک کرے۔(۵)۔۔۔۔۔۔ساری مخلوق اس کی قدرت کی حقیقت میں حیران وسرگرداں ہے مگراس کے معانی میں سے ایک معنی کابھی ادراک نہیں کرسکی۔(۶)۔۔۔۔۔۔وہ پاک ہے اوراس کی شانیں بلندوبالاہیں اوروہ بڑاہی مہربان اورطاقتوروبرترہے ۔
    پاک ہے وہ جومعبودہے ،اس نے حضرت سیِّدُناآدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو اپنے دست قدرت سے بنایا،تمام فرشتوں سے انہیں سجدہ کروایا،ان کو اپنی وسیع جنت میں ٹھہرایا۔پھرحضرت سیِّدُناآدم علیہ الصلٰوۃ والسلام اور ان کی تمام اولادکے بارے میں موت کافیصلہ فرمایا۔ اس نے اپنے پیارے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو اس فیصلہ کی خبر دیتے ہوئے ارشادفرمایا : کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ؕ ترجمۂ کنزالایمان:ہرجان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔''(پ۱۷،الانبیآء:۳۵)
    اس نے حضرت سیِّدُنانو ح علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو طوفان سے نجات عطافرمائی اوراہل ایمان کو بچا کر مخالفین کو غرق کردیااورحضرت سیِّدُنانو ح علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے لئے بھی اس موت کافیصلہ فرمایاجو جن و انس کے لئے لکھ دی گئی ہے ۔ چنانچہ ، اس نے اپنے حبیب،حبیبِ لبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے ارشادفرمایا: کُلُّ مَنْ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿ۚۖ۲۶﴾ ترجمۂ  کنز الایمان:زمین پر جتنے ہیں سب کو فنا ہے۔''(پ۲۷،الرحمٰن:۲۶)
    اس نے حضرت سیِّدُناابراہیم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کواپنا خلیل بنایا،انہیں مرادتک پہنچایا،صراطِ مستقیم پرثابت قدم رکھا، ان کو آسمانوں اور زمین کی ساری بادشاہی دکھائی اورمشاہدہ کروایا۔اورپھرآپ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام پر بھی موت کا وعدہ پورافرمایا۔اورحضورنبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے موت کاحال اوراس کی طاقت کو یوں بیان فرمایا:' اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یُدْرِکۡکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْکُنۡتُمْ فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ ترجمۂ کنزالایمان:تم جہاں کہیں ہو موت تمہیں آلے گی اگرچہ مضبوط قلعوں میں ہو۔''(2)(پ۵،النسآء:۷۸)
    اُس نے حضر ت سیِّدُناموسیٰ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کوہم کلامی کے لئے منتخب فرمایا،ان کو اپنا کلام سنایااوراپنے لذت والے خطاب سے انہیں ان کے مقصود مطلوب تک پہنچادیااورپھران کی طرف بھی موت کوبھیج دیا۔اور حضورنبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے ارشادفرمایا: کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوۡرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ ترجمۂ کنزالایمان:ہر جان کو موت چکھنی ہے اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو پورے ملیں گے۔''(پ۴،اٰل عمران :۱۸۵)
    اُسی نے حضرت سیِّدُناعیسیٰ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو بغیر باپ کے پیدا فرمایااوراس میں کوئی شک وشبہ نہیں اوریہ اس کے اختیارمیں ہے۔ اورحضرت سیِّدُناعیسیٰ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے مادرزاد اندھوں اور سفیدداغ (یعنی برص) والوں کوشفادی اورمُردوں کو زندہ کیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ان کے متعلق خبر دیتے ہوئے ارشاد فرماتاہے: ''اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ ترجمۂ  کنزالایمان:میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گااور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا۔''(پ۳،اٰل عمران:۵۵)
    اوروہی ذات ہے جس نے حضرت سیِّدُنا محمد ِمصطفی، احمد ِمجتبیٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو نبی عربی ،امین و مامون،صاحبِ عزت ومر تبہ اورمحافظ ِ عزت ہونے کی حیثیت سے منتخب فرمایااورچن لیا۔باوجودیہ کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوایساقرب ومرتبہ عطا فرمایا جس تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے نفسِ کریمہ کوبھی وصالِ ظاہری کی خبر دی ، آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلَّم کو حوادثِ زمانہ سے آگاہ فرمایا،اورماقبل وصال فرمانے والے حضرات انبیاء و مرسلین علیہم الصلوۃ والسلام (کی ظاہری وفات ) سے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو تسلِّی واطمینان بخشا ۔چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنی محفوظ کتاب میں ارشاد فرماتاہے : ''اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ﴿۫۳۰﴾ ترجمۂ کنزالایمان:بے شک تمہیں انتقال فرمانا ہے اور ان کو بھی مرناہے۔(3)(پ۲۳،الزمر:۳0) 

1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: '' کیونکہ وہ مالکِ حقیقی ہے، جو چاہے کرے، جسے چاہے عزّت دے جسے چاہے ذلّت دے جسے چاہے سعادت دے جسے چاہے شقی کرے ،وہ سب کا حاکم ہے، کوئی اس کا حاکم نہیں جو اس سے  پُوچھ سکے۔ (اوران سب سے سوال ہوگا)کیونکہ سب اس کے بندے ہیں۔ مملوک ہیں ۔سب پر اس کی فرمانبرداری اور اطاعت لازم ہے۔ اس سے توحید کی ایک اور دلیل مستفاد ہوتی ہے ۔جب سب مملوک ہیں تو ان میں سے کوئی خدا کیسے ہوسکتا ہے؟''
2۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ''اور اس سے رہائی پانے کی کوئی صورت نہیں اور جب موت نا گزیر ہے تو بسترپر مرجانے سے راہِ خدا میں جان دینا بہتر ہے کہ یہ سعادت آخرت کا سبب ہے۔''

3۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ''اس میں کفار کا ردّ ہے جو سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی وفات کا انتظارکیا کرتے تھے۔ انہیں فرمایا گیا کہ'' خود مرنے والے ہو کر دُوسرے کی موت کا انتظار کرنا حماقت ہے ۔کفار تو زندگی میں بھی مرے ہوئے ہیں اور انبیاء کی موت ایک آن کے لئے ہوتی ہے پھر اُنہیں حیات عطا فرمائی جاتی ہے۔ اس پر بہت سی شرعی بُرہانیں (دلائل)قائم ہیں۔''

Post a Comment

0 Comments