جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند:
اس عظیم الشان نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی دنیا میں تشریف آوری پر ساری کائنات خوشی سے جھوم اٹھی۔ اس ماہ ِمبارک کی پہلی رات حضرتِ سیِّدَتُناآمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عجیب کیف وسرورحاصل ہوا ۔ دوسری رات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو حصولِ مطلوب کامژدہ ملا۔تیسری رات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے کہا گیاکہ آپ کے شکمِ اطہر میں جو ہستی ہے وہ ہماری حمد بجا لانے اور شکر ادا کرنے والی ہے۔ چوتھی رات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ملائکہ کی تسبیح سنی جو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی آمد کا اعلان کر رہے تھے۔ پانچویں رات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خواب میں حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علیہ الصلٰوۃوالسلام کو دیکھاجوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو نوروالے اور بلندیوں کے مالک نبئ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی بشارت دے رہے تھے۔چھٹی رات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوایسا دائمی فرحت و سرور حاصل ہوا کہ اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہ کمزور پڑیں ، نہ آپ کو کبھی تھکاوٹ ہوئی ۔ساتویں رات اللہ عَزَّوَجَلّ نے اپنی رضاکا نور پھیلایا تو وہ ہر طرف پھیل گیا ۔ آٹھویں رات ولادت شہِ دیں کا وقت قریب آنے کی وجہ سے ملائکہ نے حضرتِ سیِّدَتُناآمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کاشانۂ اقدس کا چکر لگایا ۔نویں رات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سعادتوں اورتونگری کی ابتداء ہوئی۔ دسویں رات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تھکاوٹ وتکلیف جاتی رہی ۔ گیارہویں رات حضور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن، جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس جہانِ فانی میں تشریف لائے تو سارا گھر نور سے منوّر ہو گیا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا شک و شبہ اور ڈر ختم ہو گیا ، صفا ومروہ پہاڑ خوشی سے جھوم اٹھے، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے دُنیا میں جلوہ گر ہوتے ہی اپنے پروردگارِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سجدہ کیا اور اپنی انگلی آسمان کی جانب اس طرح بلند کی جیسے کوئی شخص عاجزی و انکساری سے اپنے مالک کے سامنے ہاتھ بلند کرتا ہے۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی خوشبو کائنات میں بکھر گئی،ملائکہ نے تکبیر و تہلیل(اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ) کے نعرے لگائے اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے عظمت وجلالت والے چہرۂ اقدس کے مبارک نورسے ساری زمین بُقعۂ نور(یعنی نور کا ٹکڑا)بن گئی ۔
حضرتِ سیِّدَتُناآمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ'' میں نے سفید بادلوں کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا جنہوں نے نبئ رحمت،شفیعِ اُمَّت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو مجھ سے چھپالیاپھر میں نے کسی کہنے والے کو یہ کہتے سنا:''اے فرشتو!انہیں مشرق و مغرب کا طواف کراؤ ،انہیں تمام سمندری مخلوق ، جنگلوں، جانوروں اور خالی جگہوں میں رہنے والے جنوں کے پاس سے گزارو اور انہیں ہر ذی روح پر پیش کروتا کہ وہ انہیں ان کے نام اور اوصاف کے ساتھ پہچان لیں ،نیز انہیں سب انبیاء علیہم السلام کی جائے ولادت کا بھی چکر لگواؤ تاکہ اِن کی برکت کے آثار و نشانات اُن کو بھی عام ہو ں۔''
حضرتِ سیِّدَتُناآمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مزید فرماتی ہیں: '' پھر وہ بادل آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم سے دور ہو گئے توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم سفید اونی کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے اور نیچے سبز ریشم بچھا ہواتھا۔ تین افراد بڑی تیزی سے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی جانب بڑھے ایک کے پاس سرخ سونے کا طشت ، دوسرے کے پاس موتیوں سے جَڑا ہوا کوزہ اورتیسرے کے پاس سبز ریشم کا رومال تھا۔ انہوں نے چہرۂ حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کوکوزے کے پانی سے دھویا پھر رومال سے تصدیق کی مہر نکال کر پشتِ نبوی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم پر ثبت کر دی۔ اس کے ساتھ ہی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی سعادت اور توفیق مکمل ہو گئی، پھر کسی کی آواز آئی:''انہیں لوگوں کی نگاہوں سے چھپادو اورانہیں حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ الصلٰوۃوالسلام کی برگزیدگی، حضرتِ سیِّدُنا شیث علیہ الصلٰوۃوالسلام کی معرفت ،حضرتِ سیِّدُنا نوح علیہ الصلٰوۃوالسلام کی رِقّت و نرمی ،حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علیہ الصلٰوۃوالسلام کی گہری دوستی،حضرتِ سیِّدُنا اسماعیل علیہ الصلٰوۃوالسلام کی فرمانبرداری ،حضرتِ سیِّدُنا ایوب علیہ الصلٰوۃوالسلام کا صبر ،حضرتِ سیِّدُنا یعقوب علیہ الصلٰوۃوالسلام کی بردباری ،حضرتِ سیِّدُنا یوسف علیہ الصلٰوۃوالسلام کاحسن وجمال ،حضرتِ سیِّدُنا داؤدعلیہ الصلٰوۃوالسلام کی سُریلی آواز،حضرتِ سیِّدُنا سلیمان علیہ الصلٰوۃوالسلام کاحکم،حضرتِ سیِّدُنا لقمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت ،حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی طاقت،حضرتِ سیِّدُنا یحیٰ علیہ الصلٰوۃوالسلام کا زہد اورحضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃوالسلام کی خندہ پیشانی عطا کر دو،بلکہ ان کو تمام انبیاء و مرسلین علیہم الصلٰوۃوالسلام کے اخلاقِ حمیدہ سے متصف کر دو۔''
(رسائلِ میلادِ مصطفی،باب مولد النبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم لابن حجر مکی علیہ الرحمۃ،ص ۲۴،مختصرًا)
پاک ہے وہ ذات جس نے شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا کوسب نبیوں کا سلطان بنایا اور ان کے ذکر ِ خیر کو ہر طرف پھیلایا،انہیں بلند مرتبہ عطا فرمایا،ان کی ولادت باسعادت پر فارس کی آگ بجھ گئی، بصرہ کے محلات روشن ہوگئے، بت منہ کے بل گر پڑے اور ایوانِ کسریٰ میں ہلچل مچ گئی ۔
آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم ہی شفاعتِ کبریٰ کے مالک ہیں، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے ذریعےاللہ عَزَّوَجَلَّ نے نہ
صرف موجودات کو شرف بخشا بلکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کوتمام موجودات کے لئے دنیا و آخرت میں باعث ِرحمت بنایا ۔
حضرتِ سیِّدُنا اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :''حضورنبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سب سے زیادہ شجاع وبہادر ،سب سے حسین اورسب سے زیادہ سخی تھے ۔ (صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب شجاعتہ صلی اللہ علیہ وسلم،الحدیث۲۳0۷،ص۱0۸۵) تمام لوگوں سے زیادہ بردبارتھے ۔ (احیاء علوم الدین،بیان جملۃ من محاسن اخلاقہ ،ج۲، ص۴۴۱ ) تمام لوگوں سے زیادہ کریم تھے ۔ (اخلاق النبی علیہ السلام لابی الشیخ الاصبھانی،باب ماروی فی کظمہ الغیظ وحلمہ ،الحدیث۵۷،ج۱،ص۶0 ) سب سے زیادہ عابد و زاہدتھے اور تمام لوگوں سے زیادہ فصیح کلام کرنے والے تھے۔ (احیاء علوم الدین،کتاب آداب المعیشۃ واخلاق النبوۃ،ج۲،ص۵0 ۴) (المرجع السابق،بیان جملۃ من محاسن اخلاقہ،ج۲، ص۴۴۴) ایمان کے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح اور سب سے بڑھ کر انصاف فرمانے والے تھے ، نیزوسیع الظرف تھے ، قیدیوں پر رحم فرماتے ،بڑوں کی عزت کرتے ،خندہ پیشانی سے ملاقات کرتے ، گرمیوں کی شدت میں بھی روزہ رکھتے اور تاریک راتوں میں قیام کرتے۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو ربِّ قدوس عَزَّوَجَلَّ نے یوں مخاطب فرمایا:
(1) یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿45﴾ۙوَّ دَاعِیًا اِلَی اللہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا ﴿46﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اے غیب کی خبریں بتانے والے(نبی)!بے شک ہم نے تمہیں بھیجاحاضر ناظر اور خوشخبری دیتااور ڈرسناتا۔اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتااور چمکادینے والا آفتاب۔(پ22،الاحزاب:45،46)
اے میرے پیارے اسلامی بھائیو!جب سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار باذنِ پروردگارعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی تشریف آوری ہوئی تو زندگی میں رونق آگئی اور باطل ختم ہو گیا،ایمان کا چراغ جلاتو پھر کبھی نہ بجھا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے میلادِ مبارک کی خبر دینے والی لطیف وخوشگوار ہوا ساری کائنات میں چلی اور آپ کے نورِ مبارک سے ساری کائنات نے عزت وشرافت کالباس پہن لیا۔ جب اس کا گزر فارس کی زمین سے ہوا تو اس نے (صدیوں سے جلنے والے) آتش کدے کو بجھا دیااور اہلِ فارس میں سے سب سے پہلے حضرتِ سیِّدُنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے محسوس کیا،آپ بڑی تیزی سے حصولِ ایمان کی خاطر منزلیں طے کرتے ہوئے حضورسیِّدُ الکونین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی بارگاہِ ناز میں حاضر ہو ئے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی وحدانیت کا اقرار کر کے دائرۂ اِسلام میں داخل ہو گئے، حضرتِ سیِّدُنا سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جان لیا کہ حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی خواہش کیا ہے۔ ان کی کوشش رائیگاں نہ گئی بلکہ انہوں نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلَّم کی زبانِ اقدس سے یہ مژدہ جاں فزا سننے کی کامیابی حاصل کرلی کہ''سَلْمَانُ مِنَّا''یعنی سلمان فارسی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہم میں سے ہیں۔''
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،الرقم ۳۵۹سلمان فارسی،ج۴، ص۶۲)
جب اس لطیف وخوشگوار ہواکاگزر ارضِ روم سے ہوا توسب سے پہلے اہلِ روم کے سردارحضرتِ سیِّدُنا صُہَیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی مہک کو محسوس کیاتوتاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِعظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوکردامنِ اسلام کو تھام لیا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے دیدارسے فیضیاب ہوکر صحابیت کاشرف حاصل کیا۔جب میلادِ مبارک کی لطیف وخوشگوار ہوا ملک ِ یمن کی سرزمین پر پہنچی تو اس کی مہک سب سے پہلے حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ظاہر وباطن میں محسوس کی اور مصطفی جانِ رحمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو پانے کے لئے بغیرکسی ظاہری معاوضے کے اپنی جان لڑاد ی اور باوجود وطن کی دوری کے مصطفی جانِ کائنات صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلم پر ایمان لائے توسیِّدِعالم نے ان کی تعریف کرتے ہوئے ارشادفرمایا:''میں یمن کی طرف سے خوشبوئے رحمن عَزَّوَجَلَّ پاتا ہوں
(یعنی یمن رحمانی تجلیات کے ظھور کا مقام ہے۔ مرقاۃ، ج۱0،ص۶۴۶ )۔''
(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی ھریرۃ،الحدیث۱0۹۷۸،ج۳، ص۶۴۹)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام ومرتبہ اور عظمت و شان کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ارشاد فرمایا:'' اے عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ )!جب تم اویس قرنی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے ملو تو اسے سلام کہنااور کہناکہ وہ تیرے لئے دعائے مغفرت کرے کیونکہ وہ قبیلہ ربیعہ اور مضر کے برابر لوگوں کی شفاعت کریگا۔'' (سیراعلام النبلاء،الرقم۳۷۲،اویس قرنی،ج۵، ص۷۴)
جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے میلادِ مبارک کی لطیف وخوشگوار خوشبودار ہوا حبشہ پہنچی تو وہاں سب سے پہلے حضرتِ سیِّدُنا بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لبیک کہا اور انہیں تصدیق کی توفیق نے ایمان تک پہنچادیا،پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذانیں دیا کرتے اور یوں اپنے ایمان کا اعلان کرتے اور دین ِ اسلام کے لئے پریشان رہتے اور حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ذکر ِ خیر کے جھنڈے جگہ جگہ گاڑ دیئے تو نبئ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے ان کی خاص طور پر تعریف فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:'' اے بلال(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! تم میرے تذکرے عام کرتے اور میری قدر ومنزلت لوگوں میں اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہو، یہی وجہ ہے کہ جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے آگے تمہارے چلنے کی آواز سنی ۔''
(جامع الترمذی،ابواب المناقب،باب اتیت علی صر۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۳۶۸۹،ص۲0۳۱،فیہ''خشخشتک ا مامی''فقط)
اے میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو!سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ !اس حبشی غلام کی طرف عنایتِ ربّانی سبقت لے گئی
جبکہ سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے قریشی چچا پر شقاوت و بدبختی غالب آگئی۔حضرتِ سیِّدُنا صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روم میں معرفت کی بو پائی تو محبتِ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم میں سرگرداں و حیراں ہو کر جنگلوں میں نکل گئے اور جب قبولیت کی لطیف وخوشگوار ہوائیں حضرتِ سیِّدُنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر چلیں تو گھروالوں، وطن اور سب سے جدا ہو کر محض زیارتِ نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی طلب میں نکل کھڑے ہوئے۔ اور جناب صادق وامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے اپنے اس فرمانِ عالیشان سے حضرتِ سیِّدُنااویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اچھے وصف سے موصوف کر دیا کہ''میں یمن کی طرف سے خوشبوئے رحمن عَزَّوَجَلَّ پاتا ہو ں ۔ ''
جب یہی نسیمِ سحر یمن سے گزری تو اس کی مہک پا کرحضرت سیِّدُنا عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتوں کی پوجا چھوڑ کر اسلام کا دامن تھام لیا اور قدم بوسۂ رسولِ کریم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم سے مشرّف ہو گئے اور پھر محبت و عشقِ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میں موت کو گلے لگا لیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاواقعہ اہلِ عقل ودانش کے لئے حیران کن ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام لانے سے قبل حضرتِ سیِّدُنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بت کی پوجاکیا کرتے تھے ،آپ کی ایک بیٹی فالج و جذام کی بیماری میں مبتلا تھی اور چلنے پھرنے سے قاصر تھی،آپ اپنے بت کے پاس بیٹھ جاتے اور اپنی بیٹی کو بھی اس کے سامنے بٹھا لیتے اور پھر کہتے کہ میری یہ بیٹی بیمار ہے اس کا علاج کر دے، اگر تیرے پاس اس کی شفاء ہے تو اسے مصیبت و بیماری سے چھٹکارا دے دے ،کئی سال اس بت سے اپنی حاجت پوری کرنے کا مطالبہ کرتے رہے لیکن اس نے ان کی حاجت برآری نہ کی۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر توفیق و ہدایت کی بادِ عنایت چلی توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زوجۂ محترمہ سے ارشاد فرمایا :'' کب تک اس بہرے و گونگے پتھر کی عبادت کرتے رہیں گے جو نہ آواز نکالتا ہے، نہ بات کرتا ہے، میں اِسے دین ِ حق گمان نہیں کرتا۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی نے عرض کی : ''آپ ہمیں کسی راستے پر لے چلیں۔ اُمید ہے کہ ہم راہِ حق پا لیں گے ،یقینا اس مشرق و مغرب کا کوئی تو خدا ہو گا۔''
حضرتِ سیِّدُنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر کی چھت پر بت کے سامنے بیٹھے تھے کہ اچانک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نور دیکھا جس نے آفاق کو بھر دیا اور ساری موجودات کو روشنی سے چمکادیااور پھراللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نگاہِ بصیرت سے پردے ہٹا دئيے تا کہ آپ خوابِ غفلت سے بیدار ہوجائیں ،پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ فرشتے قطار در قطار ایک گھر کے گرد جمع ہیں،پہاڑ سجدہ ریز ،زمین ساکت و جامد اور درخت جھکے ہوئے ہیں،خوشیاں عروج پر ہیں اور پھر ایک آواز سنی کہ ہدایت دینے والے نبئ محترم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی ولادت ہو گئی ہے، اس کے بعد آپ اپنے بت کے پاس آئے تو وہ بھی اوندھا پڑا ہوا تھا،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی سے کہا:''یہ کیا ہو رہا ہے ؟کس چیز کا ظہور ہو رہا ہے؟یہ کیسی خبر سنائی دے رہی ہے؟''پھر بت کو گھُور کر دیکھا تووہ کہہ رہا تھا:' توجہ سے سنو! ایک بہت بڑی خبر کا ظہور ہو چکا ہے اور وہ یہ کہ آج وہ ہستی دنیا میں تشریف لاچکی ہے جو کائنات کو شرف و افتخار بخشے گی ،وہ نبئ آخر الزماں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم تشریف لا چکے ہیں جن کا صدیوں
اور سب سے زیادہ عاجزی وانکساری فرمانے والے تھے۔ سے انتظار کیا جا رہا تھا جن سے حجر و شجر گفتگو فرمائیں گے ،چاند ان کی خاطر دو ٹکڑے ہو گااور وہ بنی ربیعہ و بنی مضر کے سردار ہیں۔''
حضرتِ سیِّدُنا عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زوجہ سے استفسار فرمایا: ''کیا تم سُن رہی ہو، یہ بے جان پتھر کیا کہہ رہا ہے ؟ ' ' اس نے عرض کی: ''اس سے اس مولودِ محترم کا اسم گرامی تو دریافت کریں۔'' آپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا :'' اے وہ غیبی آواز جو اس سخت پتھر کی زبان میں گفتگوفرمارہی ہے! تجھے اس ذات کی قسم جس نے تجھے قوت گویائی عطا فرمائی! ذرا یہ تو بتاؤکہ اس پیدا ہونے والی ہستی کا اسمِ گرامی کیا ہے؟'' آواز آئی:''حضرتِ سیِّدُنا محمد ِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم جو صاحب ِ زم زم و صفا یعنی حضرتِ سیِّدُنا اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بیٹے ہیں،آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی زمین تہامہ ہے ،آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت ہے اورسخت گرم دھوپ میں بادل آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم پرسایہ فگن رہے گا۔''
حضرتِ سیِّدُنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی اہلیہ سے ارشاد فرمایا:''چلو، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی تلاش میں نکلیں،تاکہ ہم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے سبب راہ ِحق پا لیں۔''ابھی وہ دونوں میاں بیوی یہ گفتگو کرہی رہے تھے کہ ان کی بیٹی جونیچے گھرمیں بیمارپڑی تھی، اچانک ان کے پاس چھت پر آکھڑی ہوئی اور انہیں پتہ بھی نہ چلا،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا تو پوچھا: ''اے بیٹی! کہا ں گیا تیرا وہ درد اور بیماری جس میں تو ہمیشہ سے مبتلا تھی ؟ اور کہاں گیاتیرا بے قراری کی وجہ سے راتوں کو جا گنا؟''
بیٹی نے جواب دیا:''اے میرے والد ِ محترم !میں نے خواب دیکھا کہ میرے سامنے ایک نور ہے اور ایک شخص میرے پاس آیا۔میں نے اس سے دریافت کیا: ''یہ نور کس کا ہے جو میں دیکھ رہی ہوں؟اوریہ شخص کون ہے جس کا نور مبارک مجھ پر چمک رہا ہے؟'' مجھے جواب ملا:''یہ نور بنی عدنان کے سردارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کا ہے جن سے ساری کائنات معطر ہو گئی ہے۔'' میں نے پھر پوچھا : ''ان کا اسمِ گرامی کیا ہے؟''تو جواب ملا :''ان کا نام مبارک محمد اور احمدصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم ہے، قیدیوں اور مصیبت زدوں پر رحم اور مجرموں کو معاف فرمائیں گے۔''
میں نے پوچھا:'' ان کادین کیاہے؟''جواب ملا:'' دینِ حنیف ۔''میں نے پوچھا:'' ان کانسب کیا ہے؟''جواب ملا: '' قریشی عدنانی ۔''میں نے پوچھا:'' یہ کس کی عبادت کریں گے ؟''جواب ملا:''خدائے وحدہ، لا شریک عَزَّوَجَلَّ کی۔'' میں نے پوچھا : '' اے مجھ سے خطاب فرمانے والے! تو کون ہے ؟''جواب ملا:'' میں ان کی آمد کی بشارت دینے والے فرشتوں میں سے ایک ہو ں۔''
میں نے عرض کی: ''جس دکھ درد میں میں مبتلا ہوں اس کے بارے میں تیرا کیاخیال ہے؟ '' اس نے جواب دیا:'' بارگاہِ ربُّ العزت عَزَّوَجَلَّ میں ان کی عظمت ا ور جاہ ومرتبہ کا وسیلہ پیش کرو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے خود ارشاد فرمایا ہے: ''میں نے اپنا راز اور اپنی برہان ان کو ودیعت کر دی ہے،اب جس نے بھی ان کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی میں اس کو ضرور قبول کرو ں گا اور قیامت کے دن اپنے نافرمان کے حق میں بھی ان کی شفاعت قبول فرماؤں گا۔''پس میں نے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی
بارگاہ میں اپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے مرتبۂ کمال کا واسطہ دے کر دعا کی اور اپنے ہاتھ جسم پر پھیر لئے۔ اب جبکہ میں بیدار ہوئی تو بالکل تندرست ہو چکی تھی جیسا کہ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ حضرتِ سیِّدُنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زوجہ سے فرمایا: ''یقینا اس مولودِ مسعودصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی خبر خوش آئند اور بڑی دل آویز ہے ،ہم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی عجیب و غریب نشانیاں سن اور دیکھ رہے ہیں، میں توضرور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی محبت میں وادیاں اور گھاٹیاں عبور کرتاہوا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی بارگاہ تک رسائی حاصل کروں گا۔
چنانچہ، وہ قافلے کے ہمراہ گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا کا قصد کیا۔ وہاں پہنچ کر حضرتِ سیِّدَتُنا آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر کے متعلق دریافت کیا،اور پھر کاشانۂ اقدس کے دروازے پر دستک دی۔ جواب ملنے پر عرض کی: '' ہمیں اس نو مولود ہستی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی زیارت کرا دیں جس کے نور کی بدولت اللہ عَزَّوَجَلَّ نے موجودات کو منور فرمایا ہے اور جس کی وجہ سے اس کے آباؤاجداد شرف والے ہو گئے ہیں ۔''اس پر حضرتِ سیِّدَتُنا آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ارشاد فرمایا :'' میں ہر گز اس ہستی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو باہر نہیں نکالوں گی کیونکہ مجھے یہودیوں کی جانب سے تکلیف پہنچائے جانے کا خطرہ ہے۔''
انہوں نے عرض کی:''ہم نے تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی محبت میں اپنے وطن سے جدائی گواراکی، حبیبِ خدا عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کا حسن و جمال دیکھنے کے لئے اپنا دین چھوڑا اور اپنے بدنوں کو تھکاوٹ سے چور چور کردیا۔''
حضرتِ سیِّدَتُنا آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ارشاد فرمایا:'' اگر ایسا ہے تو پھر انتظار کرو ، کچھ دیر تک مزید صبر کرو، قطعاً جلد بازی سے کام نہ لو پھر آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکچھ دیر کے لئے دروازے کے پاس سے ہٹ گئیں اور دوبارہ واپس آکر انہیں ارشاد فرمایا: ''اندر آجاؤ۔''جب شمعِ رسالت کے پروانوں نے اجازت پاکر باریابی کاشرف حاصل کیا تو انوار ِحبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے جلوے دیکھ کر نثار ہو گئے اور بے اختیار تکبیر و تہلیل کے نعرے زبانوں پر جاری ہو گئے،اور پھر جب رُخِ زیبا سے نقاب ہٹا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے چہرۂ اقدس سے ایسی روشنی نمودار ہوئی جس کی کرنیں آسمان تک جا پہنچیں۔یہ دیکھ کر سب خوشی و مسرت سے بے خود ہوگئے۔ قریب تھا کہ رعب و دبدبہ سے بے ہوش ہو جاتے لیکن سنبھل گئے اور آگے بڑھ کر قدم بوسی کی سعادت حاصل کی اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم پر ایمان لے آئے۔
حضرتِ سیِّدَتُنا آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ان سے ارشاد فرمایا:'' جلدی کرو کیونکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے دادا جان حضرتِ سیِّدُنا عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وعدہ لے رکھا ہے کہ میں اپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو لوگوں سے چھپا کر رکھوں اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے شان و مرتبہ کو مخفی رکھوں۔''
وہ حبیبِ خداعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی بارگاہ سے اس حال میں جدا ہوئے کہ ان کے دلوں میں محبت کی آگ بھڑک
رہی تھی پھر حضرتِ سیِّدُنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بے خودی میں اپنا ہاتھ دل پر رکھ دیا اور کہا :'' مجھے واپس حضرتِ سیِّدَتُنا آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کے درِ دولت پر لے چلو، ان سے دوسری بار رُخِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے حسن و جمال کی زیارت کی بھیک مانگتے ہیں۔ لہٰذا وہ سب ان کی یہ بے قراری دیکھ کر واپس چل پڑے۔جب حضرتِ سیِّدُنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو دیکھا تو دوڑ کر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے قدمینِ شریفین سے لپٹ گئے اور گُھٹی گھٹی سانسیں لینے لگے اور پھر اسی حالت میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کی روحِ پاک کو جنت میں پہنچا دیا۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !عاشقوں اور سچی محبت کرنے والوں کے یہی اوصاف ہوتے ہیں۔
اے میرے پيارے اسلامی بھائیو!اس محبوب ِخدا عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے اوصافِ حمید ہ سن لو ، جنہوں نے ساری کائنات کو عزت اور حسن و جمال سے مزین کر دیا ہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کا مبارک نور آفاق میں چمک رہا ہے، اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو رعب و د بدبہ اور فضل و کرم کا لبادہ اوڑھا رکھا ہے،محض آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی برکت سے حضرتِ سیِّدَتُنا آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا سے حمل کی تکالیف کوآسان کر دیا،اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو اس جہانِ فانی میں بھیج کر پوری کائنات کو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی مہک و خوشبو سے معطر کردیا۔
جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند: Jis Suhani Ghari Chamka Taiba Ka Chand |
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comment box.