سیِّدَتُنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہاکی سعادت مندی:
حضرتِ سیِّدَتُنا آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا ظہورِ نفاس کی وجہ سے کمزور ی محسوس کرنے لگیں اور اس غم میں مبتلا ہو گئیں کہ وہ رسولِ اَکرم، نبئ محتشم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو اپنا دودھ نہ پلا سکیں گی تو جانوروں ،پرندوں اور ہواؤں میں سے ہر ایک یہ دعاکرنے لگا: ''یااللہ عَزَّوَجَلَّ! ہمیں اجازت دے کہ ہم تیری مخلوق میں تجھے سب سے زیادہ پسندیدہ و عزیز ہستی کی پرورش کی سعادت پائیں۔''
فرشتوں نے عرض کی :'' یااللہ عَزَّوَجَلَّ! تو جانتا ہے کہ ہمیں تیرے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم سے کتنی محبت ہے لہٰذا تو ہمیں ان کی پرورش کرنے کی اجازت عطا فرماتاکہ ہم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے چہرۂ اقدس کے نور سے شرف پائیں اوراس کی برکت سے کچھ حصہ پائیں ۔'' ان سب کی التجاء و فریاد کے جواب میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:''میں اس بات پر قادر ہوں کہ ان کی پرورش بغیر کسی سبب اور دودھ پلانے والی کے کروں لیکن میں فیصلہ فرماچکا ہوں اور میں اپنی حکمت و دانائی کے تحت جب کسی کو کچھ عطاکر دوں تو کبھی اس سے واپس نہیں لیتا اور میں نے ازل میں اپنی حکمت کے مطابق یہ لکھ دیا تھا کہ اس درّ ِیتیم اور نفسِ کریم کو حکمت والی حلیمہ کے علاوہ کوئی دودھ نہیں پلائے گا۔''اس وقت حضرتِ سیِّدَتُنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا اپنے شہر میں
قیام فرما تھیں تو زبانِ قدرت نے ان کو پکارا اور حدی خواں نے حلیمہ کی سعادت مندی کا یوں نغمہ گنگنایا:
'' اے حلیمہ سعدیہ!اُٹھ جا اور اُس ہستی کی رضاعت کاشرف حاصل کرلے جس کا حسن و جمال یکتا ہے،اور اگر وہ ہستی نہ ہوتی تو مریضِ عشق گرفتارِمحبت نہ ہوتا، اور نہ ہی فرحت و سرور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی بارگاہ میں لے جاتا،آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم تو وہ ہستی ہیں کہ جن کا حسن بے مثال ہے،آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی خاطر توعشاق نے اپنی گردنیں تک کٹا دی ۔ اے حلیمہ سعدیہ ! جب بارگاہِ مصطفی(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم) میں حاضری کی سعادت حاصل کرے گی تو ایسے قرب کی بشارت پائے گی کہ اس کے بعد کبھی بھی کسی تکلیف کاسامنا نہ کرے گی،آپ کی رضاعت کی مہندی تیرے ہاتھوں میں رچی ہوئی ہے،جب والضحی کے روشن ومنور مکھڑے کی زیارت کرے اور چاندی سے مزین و آراستہ لب و رخسار کے جلوے اور بے مثل حسن دیکھے تو اپنے شوہر سے کہنا:'' کسی قسم کا خوف نہ کھا کہ اس بابرکت ہستی کے صدقے ہم اپنا ہر مقصود پائیں گے۔''
عام طور پر اہلِ مکہ کی عادت تھی کہ وہ اپنے شیرخوار بچوں کو رضاعت کے لئے مکہ سے باہر بھیج دیتے تھے ،حضرتِ سیِّدَتُنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا ارشاد فرماتی ہیں :'' ایک سال ہم قحط کا شکار ہو گئے، نہ تو آسمان سے بارانِ رحمت برسااور نہ ہی زمین نے کچھ اُگایا، ہم چالیس(40)عورتیں شیرخوار بچوں کی تلاش میں مکہ آئیں تا کہ ان بچوں کودودھ پلانے کے عوض ان کے گھر والے ہماری کچھ مدد کریں ،ہم مکۂ مکرمہ میں داخل ہوئیں تو اہلِ مکہ اپنے بچوں کو لے کر کعبہ معظمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا آگئے،ہر باپ اپنے بیٹے کے پہلو میں کھڑا ہوگیا،ا ب ہر عورت آگے بڑھتی اور ایک شیرخواربچہ اٹھا لیتی لیکن جب میں نے اپنی باری پر دیکھا تو سوائے ایک بچے کے کسی کو نہ پایااور اس کے پہلو میں بھی کوئی نہ تھا،میں نے اس بچے کے والد کے متعلق دریافت کیاتو مجھے بتایا گیا:یہ یتیم ہے، اس کا باپ اس وقت دنیاسے کوُچ کر گیا تھا جب اس کی ماں حاملہ تھی اور اب وہ (یعنی بچے کی ماں) کمزور وناتواں ہے۔'' میں نے اپنے خاوند سے کہا: '' اس دُرِّ یتیم کے سوا اب کوئی بچہ باقی نہیں۔'' تو اس نے کہا: '' اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پر رحم فرمائے، اسی کو لے لو، ہم خالی ہاتھ واپس نہیں جائیں گے، اُمید ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اس کا اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔'' اور معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔''
حضرتِ سیِّدَتُنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:'' میں نے اس دُرِّ یتیم کو لے لیا ،میں اس وقت خود بھی بچے کی پیدائش کی وجہ سے کمزوری کا شکار تھی اور میری چھاتی میں کمزوری اور بھوک کی وجہ سے دودھ کا ایک قطرہ بھی نہ تھا۔لیکن جب میں نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو اٹھایاتو میری کمزوری قوت میں بدل گئی اورجب اپنا پستان آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے دہن مبارک میں رکھا تو دودھ بہنے لگا،آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم نے خوب سیرہو کر پیااور میں نے ایک غیبی آواز سنی: ''اے حلیمہ سعدیہ!تجھے یہ ہاشمی شہزادہ مبارک ہو ۔''
حضرتِ سیِّدَتُنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں:'' پھر میں اپنی سواری پر سوار ہوئی جس کی حالت یہ تھی کہ کمزوری سے چل بھی نہ سکتی تھی۔ اب وہ قافلہ کی باقی تمام سواریوں سے آگے آگے بھاگنے لگی۔ اس پر سب لوگ حیران تھے ۔ جب ہم نے خشک درخت تلے پڑاؤ کیاتو وہ سرسبز ہو گیااور جب ہم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو لے کر تاریک گھر میں داخل ہوئے تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کا چہرۂ انور چراغ کی طرح چمکنے لگا یہاں تک کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کا نور چراغ کے نور پر غالب آ گیا۔''
میں نے اپنے شوہر سے عرض کی :'' کیا آپ نے بھی ملاحظہ کیا ہے جو میں دیکھ رہی ہوں؟''تو انہوں نے جواب دیا :'' کیا میں نے نہ کہا تھا کہ یہ مبارک ہستی ہے ۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :'' جب ہم گھر پہنچے تو ہمارے پاس جو بکریاں تھیں وہ بہت کمزور تھیں۔ ہم نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو اپنے ہاتھوں پر اُٹھایا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو لے کر ان بکریوں کے پاس سے گزرے تودیکھا کہ ان کی حالت تبدیل ہو چکی تھی۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی برکت سے ہمارے رزق میں کثرت ہو گئی حتیٰ کہ باقی تمام دودھ پلانے والی عورتیں اپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی وجہ سے ہم پر رشک کرنے لگیں۔''
حضرتِ سیِّدَتُنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں:''جب میں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی طرف والاپستان آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے دہن مبارک میں رکھتی تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم دودھ نوش فرماتے لیکن جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے رضائی بھائی کی طرف والا پستان آپ کے منہ میں رکھتی تو دودھ نہ پیتے، لہٰذامیں نے جان لیاکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ و سلَّم عدل و انصاف فرمانے والے ہیں۔''
حضرتِ سیِّدَتُنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں:ایک مرتبہ بارش نہ ہوئی توسب لوگ کہنے لگے:'' اے حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا! تمہارے پاس جو مبارک بچہ ہے، اگرتم اس کو اپنے ساتھ لے لوکہ ہم اس کی برکت سے بارش طلب کریں تو یہ ہمارے لئے خیروبرکت کا باعث ہو گا۔'' آپ فرماتی ہیں:'' میں اپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو لے کر باہر آئی تو لوگوں نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیااور شہر سے باہر جا کرآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے وسیلے سے بارش طلب کی تو دیکھتے ہی دیکھتے بادل نے اس قدرموسلادھار بارش برسائی کہ ہمیں ڈوبنے کاخدشہ لاحق ہو گیا۔''
حضرتِ سیِّدَتُنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں: ''آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم مدتِ رضاعت کی تکمیل تک ہمارے پاس قیام پذیر رہے۔ جب ہم نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی والدۂ محترمہ کے پاس واپس لے جانے کاارادہ کیا تو میرے خاوند کہنے لگے :'' ہم کسی طرح آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو واپس لے آئیں گے ،ہم نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی بدولت کئی برکتیں اور رحمتیں حاصل کی ہیں۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ'' ہم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو
لے کر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی والدۂ ماجدہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو عرض کی : '' ہم نے آپ کے جگر گوشہ کی بدولت بہت خیروبرکت حاصل کی ہے ،ہم آپ سے عرض کرتے ہیں کہ مزیدایک سال ان کو ہمارے پاس رہنے دیں۔'' تو حضرتِ سیِّدَتُنا آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ارشاد فرمایا: '' ٹھیک ہے، تم ان کو اپنے پاس رکھ سکتے ہو ۔''لہٰذاہم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو دوبارہ پا کربے انتہا خوش ہوئے۔
آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ مل کر بکریاں چرایا کرتے تھے ،آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے رضاعی بھائی ایک دن اپنی والدہ سے عرض کرتے ہیں:'' اے امی جان!میرا حجازی بھائی جب کبھی کسی خشک وادی میں قدم رکھتا ہے تو اس وادی کی تازگی و ہریالی لوٹ آتی ہے،اور جب بکریوں کو پانی پلانے کی خاطر کنوئیں کے پاس تشریف لاتا ہے تو پانی خودبخود کنوئیں کے منہ تک بلند ہو جاتاہے اور جب دھوپ میں سو جائے تو بادل آکر اس کو سورج کی تپش میں سایہ مہیا کرتا ہے، سوتے ہوئے اس کے پاس درندے آتے اور قدم بوسی کرتے ہیں۔'' تو حضرتِ سیِّدَتُنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ارشاد فرمایا:'' اے میرے بیٹے ! ''اپنے بھائی کا خیال رکھنا۔''
ایک دن دونوں بھائی اپنی عادت کے مطابق کھیلنے کی غرض سے باہر نکل گئے۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کارضاعی بھائی گھرواپس آیا تواس کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ وہ آ کر کہنے لگا:'' اے امی جان!میرے حجازی بھائی کو دیکھئے، وہ زخمی ہو گیا ہے۔'' ہم نے اپنے بیٹے سے پوچھا :'' ان کو کیا ہو ا؟''اس نے بتایا:'' میں اورمیرا بھائی کھیل رہے تھے کہ روشن چہروں والے تین افراد آئے، انہوں نے سبزلباس پہنے ہوئے تھے، ان کے پاس طشت اور سونے چاندی کا کوزہ تھا ،انہوں نے میرے بھائی کو اٹھایا اور پھر لٹا کرسینۂ مبارکہ کوشق کرکے قلب ِ اطہر کو باہرنکال لیا۔'' حضرتِ سیِّدَتُنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:'' ہم تیزی سے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی طرف بھاگے تو ہم نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو بالکل صحیح و سالم اور خوش وخرم پایا، نہ توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو کوئی تکلیف تھی اور نہ ہی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے سینۂ مبارکہ پر کوئی نشان تھا۔'' (السیرۃ النبویۃلابن ھشام،ولادۃرسول اللہ ورضاعتہ،ج۱،ص۱۶۴،بتغیرٍ)
حضرتِ سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے ارشاد فرمایا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی بارگاہ میں حضرتِ سیِّدُنا جبرائیلِ امین علیہ السلام،حضرت سیِّدُنا میکائیل علیہ السلام اورحضرت سیِّدُنا اسرافیل علیہ السلام کو بھیجا، ان کے پاس ایک طشت اورکوزہ تھا،جس میں جنت کا پانی اور مہر بند پاکیزہ شراب تھی اورسبز ریشم کا رومال بھی تھا۔ حضرتِ سیِّدُنا جبرائیلِ امین علیہ السلام نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو لٹایااور حکمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کا سینۂ مبارکہ شق فرمایا،پھر قلب ِ اطہر کو شق کر کے اس میں سے ایک کالے رنگ کا لوتھڑا نکال دیا اور عرض کی:'' اے سیِّدُ المرسلین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم ! آپ صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ وآ لہ وسلَّم کے قلب ِ اطہر میں یہ شیطان کا حصہ تھا۔'' پھر قلب ِ اطہر پر پانی انڈیل کر مکمل طور پر دھویا گیااس کے بعد پھر پہلے کی طرح اس کی جگہ پر واپس رکھ دیا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے سینۂ خوشبودار میں اس شق کئے جانے کے بعد دوبارہ سےئے جانے کا نشان موجود تھا
(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الاسراء برسول اللہ ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث ۱۶۲،ص ۷0۶مفھوماً،راوی انس رضی اللہ تعالٰی عنہ)
حتیٰ کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس ظاہری دنیا سے پردہ فرما گئے۔ چنانچہ ،اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
(2) اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ ۙ﴿1﴾
ترجمۂ کنزالایمان:کیاہم نے تمہارے لئے سینہ کشادہ نہ کیا۔(۱)(پ30،ا لم نشرح : 1 )
پھرحضرتِ سیِّدُنا جبرائیلِ امین علیہ السلام نے حضرتِ سیِّدُنا میکائیل علیہ السلام سے ارشاد فرمایا: '' ان کا دس امتیوں کے مقابلے میں وزن کریں۔'' جب حضرتِ سیِّدُنا میکائیل علیہ السلام نے وزن کیاتو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم ان سب پر غالب آ گئے، اس کے بعدحضرتِ سیِّدُنا جبرائیلِ امین علیہ السلام نے حضرتِ سیِّدُنا میکائیل علیہ السلام سے فرمایا:'' تمام اہلِ زمین کے مقابلے میں وزن کریں۔'' جب انہوں نے وزن کیا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم پھر بھی سب پر غالب رہے۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم ہی بدرِ کمال اور حسن و جمال کا حسین تاج ، اور شرف وبزرگی کا ہلال ہیں،تمام فضائل اور قابلِ فخر باتوں کے مالک ہیں اورکل بروزِ قیامت درودوسلام کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی شفاعت فرمائیں گے۔(ان شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ )
1۔۔۔۔۔۔مفسِّرِ شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں :'' یعنی ہم نے آپ کے سینہ کو کشادہ اور وسیع کیا ہدایت و معرفت اور موعظت و نبوت اور علم وحکمت کے لئے، یہاں تک کہ عالمِ غیب و شہادت اس کی وسعت میں سما گئے اور علائقِ جسمانیہ انوارِروحانیہ کے لئے مانع نہ ہوسکے اور علومِ لدنیہ و حکمِ الٰہیہ و معروفِ ربانیہ و حقائقِ رحمانیہ سینۂ پاک میں جلوہ نما ہوئے اور ظاہری شرحِ صدر بھی بار بار ہوا ابتدائے عمر شریف میں اور ابتدائے نزولِ وحی کے وقت اور شب ِمعراج جیسا کہ احادیث میں آیا ہے۔ اس کی شکل یہ تھی کہ جبریلِ امین نے سینۂ پاک کو چاک کرکے قلب ِ مبارک نکالا اور زریں طشت میں آبِ زمزم سے غسل دیا اور نور و حکمت سے بھر کر اس کو اس کی جگہ رکھ دیا۔''
سیِّدَتُنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہاکی سعادت مندی: Sayyedtuna Haleema Saadiya Ki Saadat Mandi |
0 Comments
Please do not enter any spam link in the comment box.